Gender Equality in Europe and America: A Reality Check

Gender Equality in Europe and America: A Reality Check

The Urdu article Europe aur America mai Sinfi Musawaat, Haqeeqat ke Ayeenay Mai (Gender Equality in Europe and America: A Reality Check) is penned down by Prof Dr Anis Ahmad, vice chancellor, Riphah International University (RIU) and senior member of IPS-National Academic Council (NAC). The work, which was originally published in IndependentUrdu.com on March 7, 2020, analyzes on the back of facts and figures whether the women in Europe and America have been able to obtain their rights which the West has been projecting for long under the slogan of ‘Gender Equality’.


یورپ و امریکہ میں صنفی مساوات، حقیقت کے آئینے میں
پروفیسر ڈاکٹر انیس احمد

گذشتہ دو صدیوں میں یورپی متشرقین اور ان کے زیر اثر بعض مسلم
محققین کا ایک پسندیدہ موضوع مسلم معاشرہ میں ”مظلوم خواتین“ کے حقوق کی
پامالی رہا  ہے۔چنانچہ وراثت کا معاملہ ہو یا عدالت میں بطور گواہ شہادت
کا  یا ایک وقت میں ایک  سے زائد شادیاں کرنے کا حق ہو، یہ بات مسلسل کہی
جاتی رہی ہے کہ اسلام کا پلڑا مرد کی طرف جھکتا ہے اور خواتین کو ان کے
حقوق سے محروم رکھا گیا ہے ۔اس مختصر مضمون میں ہماری خواہش ان اعتراضات کا
جواب دینا نہیں ہے ۔ ہم صرف یہ دیکھنا چاہتے ہیں کہ یورپی اور امریکی
تحقیق اور مصدقہ اعداد و شمار کی روشنی میں  یورپ اور امریکہ کےمعاشرہ ،
معیشت ، تعلیم گاہوں اور فوجی اداروں میں  کیا”صنفی مساوات“کے اصول کے نفاذ
کے نتیجے میں خواتین اپنے حقوق کے حصول میں کامیابی حاصل  کر سکیں ؟

جہاں تک اسلام کا تعلق ہے ، ایک فطری اور کامل دین ہونے کی
بنا پر وہ مرد اور عورت کو طبعی اور اخلاقی ضروریات کے پیش نظر جو ہدایات،
قوانین اور تعلیمات دیتا ہے ان کو پیش نظر رکھتے ہوئے اگر صرف مغرب کے
”صنفی مساوات، Gender equality“ کے اصول پر عمل پیرا ہونے کے نتائج پر غور
کر لیا جائے تو ہر فرد جو عقل و قلب رکھتا ہے اسلامی تعلیمات و قوانین کی
صداقت پر اس کا یقین مزیدمستحکم ہو جائے گا اور اس پر  انسانوں کے بنائے
ہوئے  نام نہاد  تصور صنفی مساوات کی اصل  حقیقت آشکارا ہو جائے گی۔

آج عمرانی علوم میں جس پہلو پر سب سے زیادہ زور دیا جاتا ہے ،
وہ مبنی بر شہادت تحقیق یعنی evidence based research ہے جس کے لیے اولاً
اعدادی منہج quantitative method اور پھر کیفیاتی اور تجزیاتی منہج
qualitative research کا استعمال کیا جاتا ہے ۔اولین طریقہ اعداد و شمار،
زمینی جائزوں، سوالناموں اور ملاقاتوں کے ذریعے مواد یکجا کرنے کے بعد
معلومات کی درجہ بندی اور تجزیہ کرنے کے ذریعہ  معاشرتی ، معاشی ، سیاسی ،
اخلاقی رویوں میں ترقی یا زوال کے رجحان سے آگاہ کرتا ہے ۔ جب کہ کیفیاتی
طریق تحقیق میں ذاتی رائے اور رجحانات کا امکان رہتا ہے۔

یورپ کے حوالے سے ۲۰۱۷ میں طبع شدہ European Union Agency for
Fundamental Rights-FRA کے زیر اہتمام تحقیقی  اعداد و شمار اور جائزے
بتاتے ہیں کہ عالمی  سطح پراور مقامی ریاستوں کی جانب سے یورپ میں خواتین
کے ساتھ صنفی نا انصافی کا مسئلہ ابھی تک اپنے ابتدائی مراحل میں ہے ۔جب کہ
غیر یورپی اقوام اپنی خوش فہمی کی بنا پر اس غلط فہمی میں مبتلا ہیں کہ
یورپ و امریکہ میں خواتین  کو عزت اور تحفظ  کی نعمتیں حاصل  ہو گئی ہیں
اور غیر یورپی اقوام ابھی تک صنفی عدم مساوات پر قابو نہیں پا  سکی ہیں ۔

۲۰۱۲ء کے ایک غیر جانبدارانہ جائزہ کے مطابق یورپ میں ۱۴ فیصد
خواتین کو  دوران ملازمت محض عورت ہونے کی بنا پر تعصبات کا نشانہ بننا
پڑا ۔یہ تو وہ خواتین ہیں جو معمولی معاوضہ پر کام کر رہی ہیں لیکن جو
اعلیٰ مناصب تک پہنچنے میں کامیاب ہوئیں ان کے حوالہ سے  یہ تعصب ، تفریق
اور امتیاز ۲۸٪ ہے۔ جب کہ  Luxemburg  میں طبع شدہ ایک جائزہ کے مطابق
تفریق و امتیاز کا سامنا ۵۷٪ خواتین کو پیش آیا ۔ ان میں بھی وہ خواتین جو
دوران ملازمت حاملہ ہوئیں ان میں ۴۳٪ کو صرف ماں بننے کی سزا میں اس تفریق
وتعصب کا شکار ہونا پڑا۔

اس سے آگے بڑھ کر ” یکساں مواقع ملازمت“  equal opportunity
کا اصول جس  کا نفاذ خواتین کو یکساں حقوق دینے کی تحریک کے نتیجے میں یورپ
اور امریکہ میں ہوا ، اور اس  کے نتیجے میں ملازمت اور تعلیم دونوں جگہ
ملکی قانون کے  خوف سے اداروں کو مرد اور عورت دونوں کو ملازمت میں یکساں
جگہ دینی پڑی ۔ اس مخلوط معاشرہ اور مخلوط تعلیم کی  ”برکات“ کے سلسلہ  میں
 صرف یورپ میں ہونے والی تحقیقات  و تجزیہ  یہ ثابت کر ر ہے ہیں کہ صرف
ہنگری کی یونیورسٹیوں کے دو ہزار طلبہ و طالبات سے کیے گئے انٹریوز اور
سوالناموں کے نتائج  یہ ظاہر کرتے ہیں کہ اس آزادی و اختلاط کے ماحول میں
۳۳٪ طالبات کو جنسی ہراسانی کا سامنا اور ۱۲٪ طالبات کو جنسی تشدد کا نشانہ
بننا پڑا۔یہی صورت حال رومانیہ ، جرمنی ، پولینڈ ، ڈنمارک میں پائی جاتی
ہے۔

جرمنی میں خواتین پر جنسی تشدد اور ہراسانی کی شرح ۵۸٪ ہے ،
جب کہ پولینڈ میں ایک تحقیقی جائزہ  میں حصہ لینے والی ۴۵۱ خواتین میں سے
۸۸٪ پندرہ سال کی عمر کے بعد کسی نہ کسی شکل میں  جنسی ہراسانی اور تشدد کا
شکار رہیں ۔ ہالینڈ میں ہراسانی کے حوالہ سےگیارہ سو خواتین سے جمع کردہ
معلومات کی روشنی میں  دن کی روشنی میں گلیوں اور بازاروں میں ۹۴٪ خواتین
ہراسانی کا شکار ہوئیں۔خواتین کے ساتھ یہ تفریقی رویہ ایسے حالات میں
اختیار کیا گیا ہے  جب خواتین  کی یکساں نمائندگی کے اصول کی بنا پر یورپی
پارلیمنٹ میں خواتین کی تعداد ۳۷٪  ہے اور خواتین  یورپی ممالک میں کسی شہر
کی انتظامیہ یا عدلیہ میں ۲۶ تا ۳۳ فیصد تک نمائندگی کی حامل ہیں ۔لیکن ان
مقامات پر  ان کی نمائندگی کے باوجود انہیں  معاشرہ ، تعلیم گاہ 
کاروباری  اور پیشہ وارانہ  اداروں میں  انھیں نہ تحفظ ملا نہ عزت و
احترام۔حتٰی کہ سیاسی میدان میں قیادت کے مقام تک پہنچنے والی خواتین کو
بھی یورپ اور امریکہ کی حد تک جنسی ہراسانی اور تضحیک کا نشانہ بنناپڑ
رہاہے ۔ اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ ایسی خواتین کی ۲۵٪ تعداد جنسی حملوں کا
شکار ہی نہیں بلکہ بعض اوقات جسمانی تشد کا شکار بھی رہی  ہے۔قانون کی
نگاہ میں صنفی مساوات کے باوجود ہر شعبہ میں خواتین تعصب، تفریق اور
استحصال کا شکار ہیں ۔

اکیسویں صدی میں برقی معلوماتی انقلاب نے خواتین کو ہراساں
کرنے اور جنسی دست درازیوں میں مزید آسانیاں پیدا کر دی ہیں ۔سائیبر
ہراسانی میں ملزم یا حملہ آور کی تلاش بھی آسان نہیں رہی۔ یورپی یونین کی
ایجنسی برائے بنیادی حقوق کی رپورٹ (نومبر ۲۰۱۷ء) نے جو حقائق پیش کیے ہیں ،
ان سے ظاہر ہوتا ہے کہ equal opportunity اور جنسی مساوات کے اصولوں پر جس
حد تک بھی عمل ہو سکا ہے ، وہ نتائج کے لحاظ سے خواتین کی عزت،تحفظ اور
شہرت کے لیے مہلک  ہی ثابت ہوا ہے ۔ امریکہ میں یہ صورت حال زیادہ مختلف
نہیں ہے۔ جامعات، تجارتی اور حکومتی اداروں میں مخلوط ماحول نے خواتین کے
تحفظ کو عملاً ناممکن بنا دیا ہے ۔جس کی ایک واضح مثال امریکی فوجی اداروں
میں ہر سطح پر جنسی ہراسانی اور تشدد کا پایا جانا ایک قومی لمحہ فکریہ
 ہے۔ ۲۰۱۸ء میں امریکی دفاعی اداروں کی مطبوعہ معلومات یہ ظاہر کرتی ہیں کہ
صرف امریکی فوج میں کام کرنے والی ۴۶٪ خواتین اور ۵۰٪ مردوں کو جنسی تشدد
کا نشانہ بنانے سے پہلے جنسی طور پر ہراساں کیا گیا تھا  اور بیشتر مواقع
پر ملزم قانون کی گرفت سے محفوظ رہے۔

برطانیہ میں جامعات میں جنسی تشددکا جائزہ ۲۰۱۸ء میں National
union of students نے کیا ۔ جس میں ۱۸۳۹ افراد پر مبنی نمونہ  میں ۴۱٪
طلبہ و طالبات نےکم از کم ایک مرتبہ اداروں کی جانب سے ہراساں کیے جانے کا
اعتراف کیا ۔ ہر آٹھ میں سے ایک طالب علم / طالبہ کو کسی نہ کسی شکل میں
جسمانی طور پر ہراساں کیا گیا۔ غالباً یہی وہ خدشات تھے ، جس کی بنا پر
معروف یونیورسٹی Cambridge میں ۱۸۶۸ء تک طالبات کا داخلہ ممنوع تھا۔ حتٰی
کے ۱۹۸۷ء تک طالبات کے داخلے پر چند پابندیاں عائد رہیں۔ لیکن  آخر کار
یونیورسٹی کو equal opportunity کے اصول کو اختیار کرنا پڑا ۔

برطانوی جامعات میں جنسی ہراسانی نہ صرف کم عمر نوجوانوں میں
بلکہ اعلیٰ تعلیم میں بھی یکساں مو جود ہے ۔جائزہ کے مطابق ۳۵٪ طلباء و
طالبات نے  جو اعلی ٰ تعلیم کاحصول کر رہے تھے اس بات کا اقرار کیا کہ ان
کی مرضی کے خلاف عملہ کے افراد کی جانب سے ان سے جنسی تعلق قائم کیا گیا۔

تاریخی تناظر میں دیکھا جائے تو جنسی مساوات کا مغربی نعرہ
سرمایہ دارانہ نظام کی ایک منطقی ضرورت کے طور پر وجود میں آیا ۔ مشینی دور
میں کم مزدوری پر کام کرنے والی افرادی قوت کی ضرورت کو پورا کیے بغیر
سرمایہ دارانہ نظام اپنے آپ کو برقرار نہیں رکھ سکتا تھا اس لیے خواتین کو
گھر سے نکال کر کارخانے میں محنت کشی اختیار کرنے کو آزادی،حریت اور ترقی
کا نام دے کر خواتین کو تجارتی کارکن بننے کی دعوت دی گئی۔ مسلم دنیا نے
مغربی سامراج کی غلامی نہ صرف سیاسی طور پر قبول کی بلکہ علمی اور معاشرتی
تصورات کو بھی مادی ترقی سے وابستہ کر کے  یہ سمجھا کہ اگر اپنے آپ کو مادی
طورپر مستحکم کرنا ہے تو مغرب کی اندھی نقالی کرنا ہو گی۔اس میں عربی
بولنے والے  ممالک ہوں یا ترکی بولنے والے یا اردو بولنے والے سب نے یکساں
رویہ اختیار کیا۔

آج جن نتائج کا سامنا یورپ اور امریکہ کو کرنا پڑ رہا ہے اور
جس طرح اس کا خاندانی اور اخلاقی نظام تباہ ہو چکا ہے ۔وہ کسی بھی ہوش مند
کے لیے یہ سمجھنے کے لیے کافی ہے کہ تنہا  صنفی مساوات مسئلہ کا حل نہیں ہے
بلکہ ہر جنس کی ضروریات ، فطرت اور کردار کے لحاظ سے اس کی تربیت و تعلیم
ہے جو اسلام کے نظام زندگی نے بہترین اصولوں کی شکل میں ہمیں فراہم  کی ہے۔

مغرب کے ایک اور تجربہ پر بھی معروضی طور پر غور کرنے کی
ضرورت ہے یعنی ایک تجربہ تو یہ تھا کہ اگر مخلوط معاشرہ ہو اور ہر شعبہ
حیات میں عورت کے وجود کو یقینی بنایا جائے ۔ تو ہم  ترقی کے اہداف کو حاصل
کر سکتے ہیں ۔ ورنہ قدامت پرستی اور بنیاد پرستی کا شکار رہیں گے۔ دوسری
جانب یہ تصوربھی پیش کیا گیا کہ اپنی معاشرتی اور فطری خواہشات کو نہ صرف
نظر انداز بلکہ دبا کر اپنی روح کو اعلیٰ مدارج تک پہنچایا جائے ، چنانچہ
کتھو لک چرچ نے یہ تصور پیش کیا کہ تجرد کی زندگی ہی بھلائی ، نیکی اور
نجات کی زندگی ہے ۔ چنانچہ پادری ہو یا نن دونوں کو بغیر نکاح کے زندگی
گزارنے کی تعلیم دی گئی ۔ اس تجرد اور غیر فطری (اور غیر اسلامی )طرز عمل
کے نتائج بھی مخلوط معاشرت سے مختلف نہیں نکلے ۔چنانچہ امریکہ اور یورپ میں
کتھولک کلیسا خصوصاً گذشتہ دو دہائیوں سے عالمی سطح پر محققین کی توجہ کا
مرکز بنا ہوا ہے اور جو اعداد و شمار خود کیتھو لک چرچ کی قائم کردہ جیوری
کی تحقیقات میں سامنے آئی ہیں  ۔ وہ نہ صرف کلیسا کے اندرونی بحران بلکہ
تجرد کے تصور کی مکمل تردید کرتی ہیں۔ ۲۰۱۹ء میں جاری کردہ تیرہ سو صفحات
پر مبنی جیوری کی یہ رپورٹ بھی ان بہت سی افواہوں کی تصدیق کرتی ہے کہ جو
عیسائی مذہبی راہنماؤں کی ذاتی زندگی کے بارے میں گردش کرتی رہی ہیں ۔کلیسا
کی دستاویزات یہ ثابت کرتی ہیں  کہ سینکڑوں اہل کلیسا نے سات سالہ بچوں سے
لے کر بالغ اور معمر افراد کے ساتھ جنسی تعلق قائم کیا ۔اور اکثر اوقات ان
واقعات کا علم ہونے کے باوجود ایسے افراد کے خلاف کوئی تادیبی کاروائی
 بھی نہیں کی گئی۔ اب جب کلیسا نے خود ان جرائم کا اقرار کیا ہے  تو ایسے
قوانین وضع کیے جا رہے ہیں جو ان افراد کو جن کے ساتھ زیادتی کی گئی یہ حق
دیں  کہ وہ کلیسا کے خلاف کاروائی کر سکیں ۔

غیرجانبدارانہ طور پر کی جانے والی تحقیقات اور جائزے جس
بنیادی مسئلہ کی طرف نشاندہی کرتے ہیں وہ سادہ الفاظ میں انسان کے مقصد
تخلیق اور معاشرتی طرز عمل کا تصوّر ہے۔ اگر انسان کا مقصد تخلیق سے اپنی
مادی ضروریات کو کسی طرح پوری پورا کر لینا ہے جو دیگر ذی روح حیوانات  بھی
کرتے ہیں تو پھر انسان کسی شرف اور اعلیٰ مقام کا مستحق نہیں۔ وہ حیوانات
کی طرح صرف اپنی بھوک خواہش اور طلب کا بندہ ہے جسے کارل مارکس، نیطشےاور
فرائیڈ نے مادہ، قوت اور جنس کی شکل میں متاثر کن فلسفیانہ انداز میں پیش
کیا اور مغربی دنیا اس پر ایمان بھی لے آئی ۔ لیکن اگر انسان کا مقصد وجود
اپنی اس فطرت کے مطابق جس پر اسے پیدا کیا گیا اس ہستی کی مرضی کے مطابق
زندگی گزارنا ہے جس نے اس کو پیدا کیا خوبصورتی عطا کی اور آغاز سے ہی
بہترین شکل دی تو پھر  وہ محض مادی ضرورت کا بندہ نہیں  ہو سکتا۔اس کا مقصد
حیات ان آفاقی  اخلاقی اصولوں کی روشنی میں زندگی گزارانا ہے جو اس پر
وقتاً فوقتاً وحی کیے گئے ۔اسلام چاہتا ہے کہ جنس کی قید اور تفریق سے آزاد
ہو کر کوئی مرد ہو یا عورت دونوں یکساں طور پر اخلاقی اصولوں  کی پیروی
کریں اوردونوں میں سے ہر ایک کی اخلاقی ، روحانی اور مادی ضروریات ایک
اعلیٰ اخلاقی نظام میں شفافیت کے ساتھ پورا ہوں –  اگر انسانوں کے خالق نے
انسانوں میں جنسی خواہش اور اس کے ذریعہ خاندان کے نظام کے قیام کو معاشرتی
، معاشی اور سیاسی نظام کے قیام کا ذریعہ بنایا ہے اور خود اپنی ہدایات
میں اس بات کو شامل کیا ہے کہ زوجین ایک دوسرے کے روحانی اور مادی حقوق کو
پورا کرنے کے ذریعہ سکون و راحت اختیار  کریں  تو فطرت کے خلاف نیکی اور
تقویٰ کے نام پر اپنے اوپر تجرد  celibacyکو سوارکرنے کا نتیجہ اس کے سوا
کیا نکل سکتا ہے کہ کیتھولک چرچ کے وہ مذہبی  رہنما جو تقویٰ کی مثال سمجھے
جاتے ہیں ، چرچ میں آنے والے بچوں ، بچیوں ،خواتین اور مردوں کی طرف راغب
ہو کر غیر اخلاقی اور غیر قانونی حرکات کے مرتکب ہوں ۔

امریکہ کے سینکڑوں کتھولک پادریوں کے حوالے سے خود چرچ کی
قائم کردہ جیوری نے جو اعداد و شمار طبع کیے ہیں وہ یہ ثابت کرتے ہیں کہ
انسانی فطرت کے خلاف جو طرز عمل اختیار کیا جائے گا وہ انسانی معاشرہ کو
فلاح ، تحفظ اور عزت فراہم نہیں کر سکتا۔

یورپ اور امریکہ میں خواتین  کے ساتھ نامناسب رویہ اور جنسی
طور پر ہراساں کرنے کے واقعات پر جو ردعمل سامنے آیا ہے وہ اس لحاظ سے تو
درست ہے کہ اس گئے گزرے دور میں بھی لوگوں کا ضمیر برائی کو برائی  کہتا ہے
لیکن جس چیز پر کوئی توجہ نہیں دی جا رہی وہ بھی کچھ کم اہم نہیں ہے یعنی
اس کے  پیچھے کیا اسباب ہیں اور جب تک ان اسباب کو دور نہیں کیا جائے گا ،
خرابی کی جڑ دور نہیں ہو سکتی ۔ہمارے خیال میں پہلی قابل  توجہ چیز اخلاق
ہے۔اسلام نے جنسی اخلاق پر غیر معمولی زور دیا ہے اور چاہتا ہے کہ ہر صاحب
ایمان اس پر سختی سے عمل کرے جب کہ یورپ و امریکہ نے اخلاقی اضافیت  پر عمل
کرنے کی بنا پر ہر فرد کو اپنے اخلاقی تصور اور ضابطہ کی آزادی دے دی
ہے۔اس لیے جتنے انسان اتنے تصورات اخلاق۔اس آزاد اخلاقی تصور میں وہ شخص
بھی جو کسی کو ہراساں کرتا ہے شرمندہ محسوس نہیں کرتا ۔اس کے خیال میں
زندگی نام ہی fun اور لذت کا ہے۔دوسرا اہم پہلو تصور قانون ہے ، اسلام ان
معاملات کو جو معاشرتی   فساد پیدا کرتے ہیں  محض ذاتی حد تک محدود نہیں 
سمجھتا ۔زنا ایک معاشرتی جرم ہے  یہ تنہا کسی مرد کے حقوق پر ڈاکہ نہیں
ہے۔جب کہ یورپ اور امریکہ نے انفرادیت کے تصور کی بنا پر اسے ذاتی خوشی ،
آمادگی یا غیر آمادگی میں تبدیل کر دیا ہے۔ جس کا نتیجہ سامنے ہے، تیسرے
یورپ اور امریکہ نے ماحول کو بالکل نظر انداز کر دیا ہے اور پورا ماحول
ایسا بنا دیا ہے جس میں برائی کا کرنا آسان اور اچھائی ، تقویٰ اور بھلائی
پر قائم رہنا مشکل سے مشکل تر ۔اگر یو ٹیوب ، برقی ابلاغ عامہ کے سینکڑوں
ذرائع ، رسائل , اخبارات، سینما ، ہر چیز جنسی لذت کی دعوت دے  اور پھر
مخلوط ماحول میں کوئی حدود نہ رکھی گئی ہوں تو پھر اس مخلوط معاشرہ، دفاتر،
تعلیم گاہ اور معیشت میں یہی کچھ ہونا چاہیئے۔جب تک ان تین اہم پہلوؤں پر
فوری اقدامات اور پالیسی وضع نہیں کی جائے گی ۔خواتین کی نام نہاد آزادی
اور جنسی مساوات کے نتائج ویسے ہی رہیں گے جسے ان  جائزوں میں پائے جاتے
ہیں ۔

اسلام خواتین پر علم کے حصول کو یکساں طور پر فرض قرار دیتا
ہے اور چاہتا ہے کہ وہ اپنے فطری دائرہ میں معاشرتی ، معاشی ، تہذیبی ، اور
ثقافتی کردار ادا کریں  لیکن وہ معاشی اور سیاسی نعروں کے ذریعہ خواتین کو
ورغلا کر سرمایہ دارانہ نظام کے استحصال کا نشانہ بنانے کی اجازت نہیں
دیتا  ۔وہ مخلوط تعلیم ، مخلوط معیشت  اور مخلوط ثقافت کو رد کر تا ہے اور
خواتین کو وہ تمام حقوق دیتا ہے جو ان کی شخصیت کی نشو ونما اور معاشرہ میں
تعمیری کردار کے لیے ضروری ہیں۔ یورپ اور امریکہ کے اداروں کے میدا نی
سروے ، براہ راست انٹرویو اور جمع کردہ شماریات یہ ثابت کرتے ہیں ، اصل
مسئلہ خواتین کی تعلیم نہیں ہے بلکہ مخلوط تعلیم ، مخلوط ادارے اور جنسی
مساوات کا تصورہے۔

مخلوط تعلیم اور تحقیقی و تجارتی اداروں میں مخلوط ماحول وہ
خرابی کی جڑ ہے جسے دور کیے بغیر اصلاح کے عمل کا آغاز نہیں ہو سکتا ۔وہ
مغرب ہو یا مشرق اگر انسانی معاشرہ میں احترام ،عزت ،،تحفظ مطلوب ہے تو صرف
اور صرف قرآن وسنت کے اصولوں کی روشنی میں کی گئی تحقیق، تجارت ، معاشرت ،
سیاست ،عدلیہ اور تعلیم ہی مرد اور عورت کو اس کی عظمت اور اکرام سے
روشناس کرا سکتی ہے۔

مغرب اور مشرق کے یہ کھوکھلے نعرے کہ صنفی مساوات  معاشی ترقی
فراہم کرے گی۔ اورجب تک مرد کے شانہ بہ شانہ عورت اپنے گھر کو تباہ کر کے
باہر نہیں نکلے گی ، ترقی نہیں ہو گی ان تمام کھوکھلے نعروں کی حقیقت مغرب
میں معاشرتی تباہ کاری اور خصوصاًخواتین کے حقوق کی پامالی نے واضح کر دی
ہے ۔لیکن وہ ذہن جو ہوش کی آنکھیں بند کر چکے ہوں ، جنہوں نے  عقل کے روزن
روشنی کی شعاعوں اور علم و عرفان کے لیے بند کر دیئے  ہوں ، جن کی مغرب سے
مرعوبیت نے انھیں اپنے عرفان نفس سے بیگانہ کر دیا ہو ، انھیں ان بولتے
حقائق تک پہنچنے  اور ان کی شدت کا احساس کرنے میں بھی خاصا وقت لگے
گا۔    

کتھولک چرچ کی اندرونی خرابیوں نے اس بات کو پایہ تکمیل تک 
پہنچا دیا ہے کہ ظاہری  طور پر اختیار کی ہوئی روحانیت بھی شیطان کے وسوسوں
سے محفوظ نہیں   رہ سکتی ، جب تک وہ مخالف جنسوں کے درمیان  اس  فاصلہ اور
دل و دماغ میں اس تصور تقویٰ کو جاری و ساری نہ کرے جو توحید نے ہم کو دیا
ہے یعنی یہ احساس کہ  تنہائی ہو یا بازار کا ہجوم ہماری ہر فکر ، نظر ،
احساس و عمل کو اللہ سبحانہ  و تعالیٰ دیکھ رہے ہیں اور ہمیں
اپنے ہر عمل کا حساب دینا ہے ۔ جس دل و دماغ میں یہ اخلاقی اصول موجود ہو
گا اس کو  شیطان گمراہ نہیں کر سکتا اور وہ ہر ما حول میں اپنے رب کا
فرمانبردار رہے گا۔ وہ پراسرار  کمروں کی تنہائی میں بھی اللہ کے خوف کو
محسوس کرے گا اور اللہ سے بغاوت کا رویہ اختیار نہیں کرے گا۔

یورپ اور امریکہ کی اندھی نقالی اختیار کرتے ہوئے ہمارے بعض
سیاست کاروں کا یہ کہنا کہ جب تک خواتین ہر میدان میں مرد کے شانہ بشانہ
کام نہیں کریں گی ، ترقی نہیں ہو سکتی ، ایک منہ بولتی ہوئی غلط بیانی ہے
اور جو ٹھوس اعداد و شمار مغربی محققین نے فراہم کیے ہیں وہ مخلوط معاشرہ
کی ناکامی اور اختلاط کی بنا پر علمی کارکردگی میں کمی، معاشی پیداوار میں
کمی  حتیٰ کہ عسکری اداروں کی فعالیت میں کمی کو ثابت کرتی ہے۔ فاعتبروا یا
اولی البصار۔

Share this post